Pages

Monday, April 8, 2013

جب آفتاب اقبال نے مجھے کہا "تم کبھی اچھے صحافی نہیں بن سکتے!"

اردو ڈائجسٹ کےلیےایک فیچرکررہےتھے، کہ معیاری مزاح کیا ہے اور غیر معیاری کیا؟ سوچا آفتاب اقبال سے بھی رابطہ ہونا چاہیے۔ سب سے زیادہ اعتراضات انہی پر تھے۔ ٹیلی فون کیا، ’’سر اس موضوع پر آپ سے گفتگو کرنی ہے، اگر پانچ منٹ مل جائیں۔‘‘ فرمانے لگے ’’ابھی تو میں بہت مصروف ہوں، آپ تین ہفتے بعد رابطہ کیجیے گا‘‘
ہم ہکا بکا رہ گئے۔ سوچا آفتاب اقبال صاحب شاید سمجھ رہے ہیں ہم نے کئی گھنٹوں کی گفتگو کرنی ہے، یہ سوچ کر اگلے دن ان کے پروگرام خبرناک کی ریکارڈنگ میں جا پہنچے کہ ہمیں تو کل پانچ منٹ درکار ہیں بات کرنے کے لیے۔ وہاں خاصی چہل پہل تھی، آفتاب اقبال ہر تھوڑی دیر بعد کسی نہ کسی پر برہم ہو رہے تھے۔ حیرت ہوئی، کہ ہنسنے ہنسانے والے پروگرام کا میزبان خود اس قسم کی علت میں مبتلا نظر نہیں آتا۔پھر یاد آیا کہ وہ تو دوران پروگرام بھی اکثر ڈانٹتے ہی پایا جاتا ہے۔ ہاں جب پروگرام کے فن کار کوئی مزاحیہ بات کہہ دیں تو وہ کندھے ہلا کر اور مونچھیں پھڑپھڑا کر ایسی حرکات ضرور کرتا ہے جن پر ہنسی کا گمان گزرے۔
ہمیں صحافت میں کچھ عرصہ تو ہو ہی چلا ہے، اکثر اوقات کسی نہ کسی کڑی صور ت حال اور سڑیل انسان سے واسطہ رہتا ہے۔ ایک گُر ہمیشہ آزمایا اور سر خرو رہے ۔ احترام سے اور عزت سے بات کرتے ہیں، مخاطب پرلے درجے کا خصیص بھی ہو تو جوابی احترام ضرور دیتا ہے۔ ہم اسٹوڈیو کے سامنے دم سادھے بیٹھے تھے۔ اس دوران وقفہ ہوا، کیمرے کی موجودگی کی وجہ سے آفتاب اقبال کے چہرے پر کسی قسم کی مسکراہٹ کا شائبہ تھا تووہ اب غائب ہو چکی تھی۔ وہ چائے کا کپ پکڑے اپنے مہمان یاسر پیرزادہ سے محو گفتگو تھے۔ کچھ ہمت بندھی، کچھ فیچر کی ذمہ داری کا خیال دامن گیر ہوا۔
’’السلام و علیکم سر‘‘ ہم منمنائے
’’وعلیکم السلام‘‘ رعونت بھرا جواب آیا
’’سر کل آپ سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی، ہم آج اس اُمید پر چلے آئے بس چند منٹ گفتگو کا وقت مل جائے۔ ‘‘
انگریزی میں گویا ہوئے:
Thank you very much, come after three weeks,I never invited you to come.
’’ہم واپسی کی راہ لینے لگے کہ آفتاب اقبال کا اگلا سوال آیا ’’آپ یہاں آئے کیوں؟ کس نے کہا تھا آپ کو آنے کا؟‘‘
ہم ہکا بکا رہ گئے…کہ جناب مزید گویا ہوئے’’کس نے صحافی بنایا ہے آپ کو؟‘‘
’’معافی چاہتا ہوں ‘‘ ہمارے اوسان خطا ہو چلے تھے
Yes, you should be very sorry. اب آفتاب اقبال کی آواز مزید بلند ہوتی گئی۔ ’’آپ کا کیا خیال تھا میں یہاں آپ کو بٹھا کے انٹرویو دوں گا؟‘‘
ہمیں سارا ہال گھومتا محسوس ہوا،آفتاب اقبال بولتا جارہاتھا، ہم جانا چاہتے تھے لیکن وہیں گڑے رہے، شاید خفت کے احساس سے قدم حرکت کرنا بھول گئے تھے۔
’’تم کبھی اچھے صحافی نہیں بن سکتے
You can never be a good professional.”Now Go!!!
احساس ذلت سے سُن ہوئے قدموں سے چلتے ہوئے اسٹوڈیو سے باہر آ کر ڈھے سے گئے۔
اب اسی منظر کو دوبارہ سوچتے ہیں تو جھرجھری سی آجاتی ہے۔ یہ بھی یاد آتا ہے کہ ڈانٹ کھانے کے دوران کتنی ہی بار ہم نے مدد طلب نظروں سے یاسر پیرزادہ کی جانب دیکھا تھا۔ ہماری بے عزتی کا منظر وہ بھی دیکھ رہے تھے؟ یہ منظر اور کون کون دیکھ رہا ہے، جاننے کے لیے ارد گرد بھی دیکھا تھا، یہ خیال بھی آیا تھا کہ آفتاب اقبال بات نہیں کرنا چاہتا، تو ایک حرف انکار کافی تھا، اس ڈانٹ ڈپٹ کی کیا ضرورت ہے؟
ہم نے فیچر کے لیے نجم سیٹھی سے بھی رابطہ کیاتھا۔ وہ آفتاب اقبال سے کہیں بلندپایہ شخصیت ہیں، صحافتی قد کاٹھ بھی خاصا بڑا ہے، وہ نہایت خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ آخر ایسا کیا تھا جس نے آفتاب اقبال کواخلاق سے عاری کر دیا۔ یہی رویہ ان کے پروگرام میں بھی بار بار دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک بڑے مقام پر بیٹھ کر ایسا طرز عمل کہ جس کا شائستگی اور اخلاقیات سے کوئی تعلق ہی نہ ہو؟
اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ ٹی وی پر مسکراتے چہروں کے پیچھے کیسے کیسے خوفناک انسان چھپے ہیں۔
ہم شاید کچھ سال اور سختیاں سہہ کر کبھی اچھے صحافی بن ہی جائیں گے، لیکن آفتاب اقبال! تم کبھی اچھے انسان نہیں بن سکتے۔