Pages

Sunday, June 21, 2015

اردو میں ایک ٹیسٹ پوسٹ

یہ اردو میں ایک ٹیسٹ پوسٹ ہے

Sunday, September 15, 2013

moved to drjourno.com

Finally News Excuse has moved to a DOT COM site...
Sounds professional, eh? Well News Excuse has also evolved, and now further posts can be read at
www.drjourno.com
This new site is built on wordpress platform, and I must say, I am missing blogspot like hell.

Thursday, July 18, 2013

A letter to Malala Attackers

IN THE NAME OF ALLAH, THE MOST MERCIFUL AND BENEFICENT
From a brother of Malala to Adnan Rasheed

Mr. Adnan Rasheed
I am writing to you in my personal capacity, as I'm shocked by what you have written to Malala Yousafzai, my sister by religion.
Whether Islam permits attacking a girl, that too in her early teens, or not; I'm surprised you do not want to argue about it. And yet you have the audacity to say your emotions for Malala were brotherly. In Islam, and in our culture (and I suppose in your culture too), we do not have very nice words for a brother whose sister is attacked, and he sides with attackers. 
In BBC Urdu, as far as I have read, Malala had only written about woes for not being able to go to school, because Taliban were blowing them. 
So you guys have a bullet for every dissenting voice. Couldn't they JUST WRITE A LETTER explaining their reasons to blow schools (just as you did in your letter)?
You say education being imparted by these schools is wrong, therefore blowing them up is right; so why don't Taliban open their own schools to impart the RIGHT education. Why can't they offer an alternative, and let people adopt it by their own free will? Why can't they let PEOPLE decide if they want admission in Madrassas or Schools?
For justification of attacks on anti-polio teams, you quote Bertrand Russell, "diet, injections, and injunctions will combine, from a very early age, to produce the sort of character, and sort of beliefs that the authorities consider desirable."
If this means polio vaccine is bad, and attacking anti-polio teams is right, then why don't Taliban INVENT an Islamic polio vaccine, to produce the sort of character that they desire? And till that Islamic polio vaccine is made, please advice what nation should meanwhile to avoid being crippled by the disease?
And let me make it very clear, I'm against killings of innocent people, whether these killings are carried out by Americans or by Taliban (that includes drone attacks and suicide bombings). I am sure you also have some justification of killing 40,000 Pakistanis (most of them Muslims) and crippling hundreds and thousands of others. 

And lastly, please do not kill me for writing this letter. 

Saturday, May 11, 2013

I was recommended by ISI: A PTI candidate admits on TV


Professor Abdul Rauf Dola is a PTI candidate from NA 146 Okara. In a television interview, he admits that he was recommended by ISI (Pakistan's spy agency). This is a shocking revelation, because one cannot imagine how many other candidates had similar 'recommendations'.
You can watch the clip here. The said talk is at 10th minute.

Monday, April 8, 2013

جب آفتاب اقبال نے مجھے کہا "تم کبھی اچھے صحافی نہیں بن سکتے!"

اردو ڈائجسٹ کےلیےایک فیچرکررہےتھے، کہ معیاری مزاح کیا ہے اور غیر معیاری کیا؟ سوچا آفتاب اقبال سے بھی رابطہ ہونا چاہیے۔ سب سے زیادہ اعتراضات انہی پر تھے۔ ٹیلی فون کیا، ’’سر اس موضوع پر آپ سے گفتگو کرنی ہے، اگر پانچ منٹ مل جائیں۔‘‘ فرمانے لگے ’’ابھی تو میں بہت مصروف ہوں، آپ تین ہفتے بعد رابطہ کیجیے گا‘‘
ہم ہکا بکا رہ گئے۔ سوچا آفتاب اقبال صاحب شاید سمجھ رہے ہیں ہم نے کئی گھنٹوں کی گفتگو کرنی ہے، یہ سوچ کر اگلے دن ان کے پروگرام خبرناک کی ریکارڈنگ میں جا پہنچے کہ ہمیں تو کل پانچ منٹ درکار ہیں بات کرنے کے لیے۔ وہاں خاصی چہل پہل تھی، آفتاب اقبال ہر تھوڑی دیر بعد کسی نہ کسی پر برہم ہو رہے تھے۔ حیرت ہوئی، کہ ہنسنے ہنسانے والے پروگرام کا میزبان خود اس قسم کی علت میں مبتلا نظر نہیں آتا۔پھر یاد آیا کہ وہ تو دوران پروگرام بھی اکثر ڈانٹتے ہی پایا جاتا ہے۔ ہاں جب پروگرام کے فن کار کوئی مزاحیہ بات کہہ دیں تو وہ کندھے ہلا کر اور مونچھیں پھڑپھڑا کر ایسی حرکات ضرور کرتا ہے جن پر ہنسی کا گمان گزرے۔
ہمیں صحافت میں کچھ عرصہ تو ہو ہی چلا ہے، اکثر اوقات کسی نہ کسی کڑی صور ت حال اور سڑیل انسان سے واسطہ رہتا ہے۔ ایک گُر ہمیشہ آزمایا اور سر خرو رہے ۔ احترام سے اور عزت سے بات کرتے ہیں، مخاطب پرلے درجے کا خصیص بھی ہو تو جوابی احترام ضرور دیتا ہے۔ ہم اسٹوڈیو کے سامنے دم سادھے بیٹھے تھے۔ اس دوران وقفہ ہوا، کیمرے کی موجودگی کی وجہ سے آفتاب اقبال کے چہرے پر کسی قسم کی مسکراہٹ کا شائبہ تھا تووہ اب غائب ہو چکی تھی۔ وہ چائے کا کپ پکڑے اپنے مہمان یاسر پیرزادہ سے محو گفتگو تھے۔ کچھ ہمت بندھی، کچھ فیچر کی ذمہ داری کا خیال دامن گیر ہوا۔
’’السلام و علیکم سر‘‘ ہم منمنائے
’’وعلیکم السلام‘‘ رعونت بھرا جواب آیا
’’سر کل آپ سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی، ہم آج اس اُمید پر چلے آئے بس چند منٹ گفتگو کا وقت مل جائے۔ ‘‘
انگریزی میں گویا ہوئے:
Thank you very much, come after three weeks,I never invited you to come.
’’ہم واپسی کی راہ لینے لگے کہ آفتاب اقبال کا اگلا سوال آیا ’’آپ یہاں آئے کیوں؟ کس نے کہا تھا آپ کو آنے کا؟‘‘
ہم ہکا بکا رہ گئے…کہ جناب مزید گویا ہوئے’’کس نے صحافی بنایا ہے آپ کو؟‘‘
’’معافی چاہتا ہوں ‘‘ ہمارے اوسان خطا ہو چلے تھے
Yes, you should be very sorry. اب آفتاب اقبال کی آواز مزید بلند ہوتی گئی۔ ’’آپ کا کیا خیال تھا میں یہاں آپ کو بٹھا کے انٹرویو دوں گا؟‘‘
ہمیں سارا ہال گھومتا محسوس ہوا،آفتاب اقبال بولتا جارہاتھا، ہم جانا چاہتے تھے لیکن وہیں گڑے رہے، شاید خفت کے احساس سے قدم حرکت کرنا بھول گئے تھے۔
’’تم کبھی اچھے صحافی نہیں بن سکتے
You can never be a good professional.”Now Go!!!
احساس ذلت سے سُن ہوئے قدموں سے چلتے ہوئے اسٹوڈیو سے باہر آ کر ڈھے سے گئے۔
اب اسی منظر کو دوبارہ سوچتے ہیں تو جھرجھری سی آجاتی ہے۔ یہ بھی یاد آتا ہے کہ ڈانٹ کھانے کے دوران کتنی ہی بار ہم نے مدد طلب نظروں سے یاسر پیرزادہ کی جانب دیکھا تھا۔ ہماری بے عزتی کا منظر وہ بھی دیکھ رہے تھے؟ یہ منظر اور کون کون دیکھ رہا ہے، جاننے کے لیے ارد گرد بھی دیکھا تھا، یہ خیال بھی آیا تھا کہ آفتاب اقبال بات نہیں کرنا چاہتا، تو ایک حرف انکار کافی تھا، اس ڈانٹ ڈپٹ کی کیا ضرورت ہے؟
ہم نے فیچر کے لیے نجم سیٹھی سے بھی رابطہ کیاتھا۔ وہ آفتاب اقبال سے کہیں بلندپایہ شخصیت ہیں، صحافتی قد کاٹھ بھی خاصا بڑا ہے، وہ نہایت خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ آخر ایسا کیا تھا جس نے آفتاب اقبال کواخلاق سے عاری کر دیا۔ یہی رویہ ان کے پروگرام میں بھی بار بار دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک بڑے مقام پر بیٹھ کر ایسا طرز عمل کہ جس کا شائستگی اور اخلاقیات سے کوئی تعلق ہی نہ ہو؟
اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ ٹی وی پر مسکراتے چہروں کے پیچھے کیسے کیسے خوفناک انسان چھپے ہیں۔
ہم شاید کچھ سال اور سختیاں سہہ کر کبھی اچھے صحافی بن ہی جائیں گے، لیکن آفتاب اقبال! تم کبھی اچھے انسان نہیں بن سکتے۔